Best Poetry Of Perveen Shakir

 




Parveen Shakir PP was a Pakistani poet, teacher and a civil servant of the Government of Pakistan. She is best known for her poems, which brought a distinctive feminine voice to Urdu literature, and for her consistent use of the rare grammatical feminine gender for the word "lover"

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے

 پروین شاکر

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہوگا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے

دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے
وا قفس میں کوئی در خود مرا صیاد کرے

سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی
روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے

سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو
وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے

جب لہو بول پڑے اس کے گواہوں کے خلاف
قاضئ شہر کچھ اس باب میں ارشاد کرے

اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود
میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے


اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے

 پروین شاکر

اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے
زمیں کی خیر مانگیں آسماں سے

اگر چاہیں تو وہ دیوار کر دیں
ہمیں اب کچھ نہیں کہنا زباں سے

ستارہ ہی نہیں جب ساتھ دیتا
تو کشتی کام لے کیا بادباں سے

بھٹکنے سے ملے فرصت تو پوچھیں
پتا منزل کا میر کارواں سے

توجہ برق کی حاصل رہی ہے
سو ہے آزاد فکر آشیاں سے

ہوا کو رازداں ہم نے بنایا
اور اب ناراض خوشبو کے بیاں سے

ضروری ہو گئی ہے دل کی زینت
مکیں پہچانے جاتے ہیں مکاں سے

فنا فی العشق ہونا چاہتے تھے
مگر فرصت نہ تھی کار جہاں سے

وگرنہ فصل گل کی قدر کیا تھی
بڑی حکمت ہے وابستہ خزاں سے

کسی نے بات کی تھی ہنس کے شاید
زمانے بھر سے ہیں ہم خود گماں سے

میں اک اک تیر پہ خود ڈھال بنتی
اگر ہوتا وہ دشمن کی کماں سے

جو سبزہ دیکھ کر خیمے لگائیں
انہیں تکلیف کیوں پہنچے خزاں سے

جو اپنے پیڑ جلتے چھوڑ جائیں
انہیں کیا حق کہ روٹھیں باغباں سے

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا

پروین شاکر

 

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا

تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا

اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ
میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا

ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا

لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا

تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا

اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے

پروین شاکر

اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے
شام کے وقت سفر کیا کرتے

تیری مصروفیتیں جانتے ہیں
اپنے آنے کی خبر کیا کرتے

جب ستارے ہی نہیں مل پائے
لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے

وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا
سائے پھیلا کے شجر کیا کرتے

خاک ہی اول و آخر ٹھہری
کر کے ذرے کو گہر کیا کرتے

رائے پہلے سے بنا لی تو نے
دل میں اب ہم ترے گھر کیا کرتے

عشق نے سارے سلیقے بخشے
حسن سے کسب ہنر کیا کرتے

 

اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک

پروین شاکر

اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک
جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک

ہر بار ہوا نہ ہوگی در پر
ہر بار مگر اٹھوں کہاں تک

دم گھٹتا ہے گھر میں حبس وہ ہے
خوشبو کے لئے رکوں کہاں تک

پھر آ کے ہوائیں کھول دیں گی
زخم اپنے رفو کروں کہاں تک

ساحل پہ سمندروں سے بچ کر
میں نام ترا لکھوں کہاں تک

تنہائی کا ایک ایک لمحہ
ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک

گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج
میں تجھ سے جدا رہوں کہاں تک

سکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو
دکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک

منسوب ہو ہر کرن کسی سے
اپنے ہی لیے جلوں کہاں تک

آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں
پھول اس کے لئے چنوں کہاں تک

دل کا کیا ہے وہ تو چاہے گا مسلسل ملنا

پروین شاکر

دل کا کیا ہے وہ تو چاہے گا مسلسل ملنا
وہ ستم گر بھی مگر سوچے کسی پل ملنا

واں نہیں وقت تو ہم بھی ہیں عدیم الفرصت
اس سے کیا ملیے جو ہر روز کہے کل ملنا

عشق کی رہ کے مسافر کا مقدر معلوم
شہر کی سوچ میں ہو اور اسے جنگل ملنا

اس کا ملنا ہے عجب طرح کا ملنا جیسے
دشت امید میں اندیشے کا بادل ملنا

دامن شب کو اگر چاک بھی کر لیں تو کہاں
نور میں ڈوبا ہوا صبح کا آنچل ملنا


کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

پروین شاکر

 

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے

 پروین شاکر

 

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہوگا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے

دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے
وا قفس میں کوئی در خود مرا صیاد کرے

سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی
روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے

سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو
وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے

جب لہو بول پڑے اس کے گواہوں کے خلاف
قاضئ شہر کچھ اس باب میں ارشاد کرے

اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود
میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Sana's Dairy