Urdu Classical Poetry

 


بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

Poet: Mirza Ghalib

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بت آئنہ سیما مرے آگے

پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے

نفرت کا گماں گزرے ہے میں رشک سے گزرا
کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے

خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے

ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے


ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

Poet: Mirza Ghalib

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے


 

میرے شہر کے سارے رستے بند ہیں لوگو

میرے شہر کے سارے رستے بند ہیں لوگو

میں اس شہر کا نغمہ گر

جو دو اک موسم غربت کے دکھ جھیل کے آیا

تاکہ اپنے گھر کی دیواروں سے

اپنی تھکی ہوئی اور ترسی ہوئی

آنکھیں سہلاؤں

اپنے دروازے کے اترتے روغن کو

اپنے اشکوں سے صیقل کر لوں

اپنے چمن کے جلے ہوئے پودوں

اور گرد آلود درختوں کی

مردہ شاخوں پر بین کروں

ہر مہجور ستون کو اتنا ٹوٹ کے چوموں

میرے لبوں کے خون سے

ان کے نقش و نگار سبھی جی اٹھیں

گلی کے لوگوں کو اتنا دیکھوں

اتنا دیکھوں

میری آنکھیں

برسوں کی ترسی ہوئی آنکھیں

چہروں کے آنگن بن جائیں

پھر میں اپنا ساز اٹھاؤں

آنسوؤں اور مسکانوں سے جھلمل جھلمل

نظمیں غزلیں گیت سناؤں

اپنے پیاروں

درد کے ماروں کا درماں بن جاؤں

لیکن میرے شہر کے سارے رستوں پر

اب باڑ ہے لوہے کے کانٹوں کی

شہ دروازے پر کچھ پہرے دار کھڑے ہیں

جو مجھ سے اور مجھ جیسے دل والوں کی

پہچان سے عاری

میرے ساز سے

سنگینوں سے بات کریں

میں ان سے کہتا ہوں

دیکھو

میں اس شہر کا نغمہ گر ہوں

برسوں بعد کڑی راہوں کی

ساری اذیت جھیل کے اب واپس آیا ہوں

اس مٹی کی خاطر

جس کی خوشبوئیں

دنیا بھر کی دوشیزاؤں کے جسموں کی مہکوں سے

اور سارے جہاں کے

سبھی گلابوں سے

بڑھ کر ہے

مجھ کو شہر میں

میرے شہر میں جانے دو

لیکن تنے ہوئے نیزوں نے

میرے جسم کو یوں برمایا

میرے ساز کو یوں ریزایا

میرا ہمکتا خون اور میرے سسکتے نغمے

شہ دروازے کی دہلیز سے

رستے رستے

شہر کے اندر جا پہنچے ہیں

اور میں اپنے جسم کا ملبہ

ساز کا لاشہ

اپنے شہر کے شہ دروازے

کی دہلیز پہ چھوڑ کے

پھر انجانے شہروں کی شہراہوں پر

مجبور سفر ہوں

جن کو تج کر گھر آیا تھا

جن کو تج کر گھر آیا تھا

احمد فرا


دوستی کا ہاتھ

گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں

اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں

فقط تمہیں کو نہیں رنج چاک دامانی

کہ سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں

تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں

مرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں

تمہارے آئنہ خانے بھی زنگ آلودہ

مرے صراحی و ساغر بھی گرد گرد سے ہیں

نہ تم کو اپنے خد و خال ہی نظر آئیں

نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے

بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے

نہ سرو میں وہ غرور کشیدہ قامتی ہے

نہ قمریوں کی اداسی میں کچھ کمی آئی

نہ کھل سکے کسی جانب محبتوں کے گلاب

نہ شاخ امن لئے فاختہ کوئی آئی

تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری

ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں

تمہیں بھی زعم مہا بھارتا لڑی تم نے

ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں

ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے

ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے

الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار

عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے

تو اب یہ حال ہوا اس درندگی کے سبب

تمہارے پاؤں سلامت رہے نہ ہاتھ مرے

نہ جیت جیت تمہاری نہ ہار ہار مری

نہ کوئی ساتھ تمہارے نہ کوئی ساتھ مرے

ہمارے شہروں کی مجبور و بے نوا مخلوق

دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں

اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے

جو لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں

چراغ جن سے محبت کی روشنی پھیلے

چراغ جن سے دلوں کے دیار روشن ہوں

چراغ جن سے ضیا امن و آشتی کی ملے

چراغ جن سے دیئے بے شمار روشن ہوں

تمہارے دیس میں آیا ہوں دوستو اب کے

نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے

اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر

چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے

احمد فرا


تو بہتر ہے یہی

یہ تری آنکھوں کی بے زاری یہ لہجے کی تھکن

کتنے اندیشوں کی حامل ہیں یہ دل کی دھڑکنیں

پیشتر اس کے کہ ہم پھر سے مخالف سمت کو

بے خدا حافظ کہے چل دیں جھکا کر گردنیں

آؤ اس دکھ کو پکاریں جس کی شدت نے ہمیں

اس قدر اک دوسرے کے غم سے وابستہ کیا

وہ جو تنہائی کا دکھ تھا تلخ محرومی کا دکھ

جس نے ہم کو درد کے رشتے میں پیوستہ کیا

وہ جو اس غم سے زیادہ جاں گسل قاتل رہا

وہ جو اک سیل بلا انگیز تھا اپنے لیے

جس کے پل پل میں تھے صدیوں کے سمندر موجزن

چیختی یادیں لیے اجڑے ہوئے سپنے لیے

میں بھی ناکام وفا تھا تو بھی محروم مراد

ہم یہ سمجھے تھے کہ درد مشترک راس آ گیا

تیری کھوئی مسکراہٹ قہقہوں میں ڈھل گئی

میرا گم گشتہ سکوں پھر سے مرے پاس آ گیا

تپتی دوپہروں میں آسودہ ہوئے بازو مرے

تیری زلفیں اس طرح بکھریں گھٹائیں ہو گئیں

تیرا برفیلا بدن بے ساختہ لو دے اٹھا

میری سانسیں شام کی بھیگی ہوائیں ہو گئیں

زندگی کی ساعتیں روشن تھیں شمعوں کی طرح

جس طرح سے شام گزرے جگنوؤں کے شہر میں

جس طرح مہتاب کی وادی میں دو سائے رواں

جس طرح گھنگھرو چھنک اٹھیں نشے کی لہر میں

آؤ یہ سوچیں بھی قاتل ہیں تو بہتر ہے یہی

پھر سے ہم اپنے پرانے زہر کو امرت کہیں

تو اگر چاہے تو ہم اک دوسرے کو چھوڑ کر

اپنے اپنے بے وفاؤں کے لیے روتے رہیں

احمد فرا


تو بہتر ہے یہی

یہ تری آنکھوں کی بے زاری یہ لہجے کی تھکن

کتنے اندیشوں کی حامل ہیں یہ دل کی دھڑکنیں

پیشتر اس کے کہ ہم پھر سے مخالف سمت کو

بے خدا حافظ کہے چل دیں جھکا کر گردنیں

آؤ اس دکھ کو پکاریں جس کی شدت نے ہمیں

اس قدر اک دوسرے کے غم سے وابستہ کیا

وہ جو تنہائی کا دکھ تھا تلخ محرومی کا دکھ

جس نے ہم کو درد کے رشتے میں پیوستہ کیا

وہ جو اس غم سے زیادہ جاں گسل قاتل رہا

وہ جو اک سیل بلا انگیز تھا اپنے لیے

جس کے پل پل میں تھے صدیوں کے سمندر موجزن

چیختی یادیں لیے اجڑے ہوئے سپنے لیے

میں بھی ناکام وفا تھا تو بھی محروم مراد

ہم یہ سمجھے تھے کہ درد مشترک راس آ گیا

تیری کھوئی مسکراہٹ قہقہوں میں ڈھل گئی

میرا گم گشتہ سکوں پھر سے مرے پاس آ گیا

تپتی دوپہروں میں آسودہ ہوئے بازو مرے

تیری زلفیں اس طرح بکھریں گھٹائیں ہو گئیں

تیرا برفیلا بدن بے ساختہ لو دے اٹھا

میری سانسیں شام کی بھیگی ہوائیں ہو گئیں

زندگی کی ساعتیں روشن تھیں شمعوں کی طرح

جس طرح سے شام گزرے جگنوؤں کے شہر میں

جس طرح مہتاب کی وادی میں دو سائے رواں

جس طرح گھنگھرو چھنک اٹھیں نشے کی لہر میں

آؤ یہ سوچیں بھی قاتل ہیں تو بہتر ہے یہی

پھر سے ہم اپنے پرانے زہر کو امرت کہیں

تو اگر چاہے تو ہم اک دوسرے کو چھوڑ کر

اپنے اپنے بے وفاؤں کے لیے روتے رہیں

احمد فر



نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

یہ عقل و دل ہیں شرر شعلۂ محبت کے

وہ خار و خس کے لیے ہے یہ نیستاں کے لیے

مقام پرورش آہ و نالہ ہے یہ چمن

نہ سیر گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے

رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک

ترا سفینہ کہ ہے بحر بیکراں کے لیے

نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو

ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے

نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے

بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے

مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرائیل آشوب

سنبھال کر جسے رکھا ہے لا مکاں کے لیے

علامہ اقبال





تھے خواب ایک ہمارے بھی اور تمہارے بھی

تھے خواب ایک ہمارے بھی اور تمہارے بھی

پر اپنا کھیل دکھاتے رہے ستارے بھی

یہ زندگی ہے یہاں اس طرح ہی ہوتا ہے

سبھی نے بوجھ سے لادے ہیں کچھ اتارے بھی

سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے

ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی

کسی کا اپنا محبت میں کچھ نہیں ہوتا

کہ مشترک ہیں یہاں سود بھی خسارے بھی

بگاڑ پر ہے جو تنقید سب بجا لیکن

تمہارے حصے کے جو کام تھے سنوارے بھی

بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے

جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی

پہ جیسے ریل میں دو اجنبی مسافر ہوں

سفر میں ساتھ رہے یوں تو ہم تمہارے بھی

یہی سہی تری مرضی سمجھ نہ پائے ہم

خدا گواہ کہ مبہم تھے کچھ اشارے بھی

یہی تو ایک حوالہ ہے میرے ہونے کا

یہی گراتی ہے مجھ کو یہی اتارے بھی

اسی زمین میں اک دن مجھے بھی سونا ہے

اسی زمیں کی امانت ہیں میرے پیارے بھی

وہ اب جو دیکھ کے پہچانتے نہیں امجدؔ

ہے کل کی بات یہ لگتے تھے کچھ ہمارے بھی

امجد اسلام امجد


کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا

میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں تری آس تیرے گمان میں

صبا کہہ گئی مرے کان میں مرے ساتھ آ اسے بھول جا

کسی آنکھ میں نہیں اشک غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم

تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا

کہیں چاک جاں کا رفو نہیں کسی آستیں پہ لہو نہیں

کہ شہید راہ ملال کا نہیں خوں بہا اسے بھول جا

کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں

وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا

تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو

وہ تھا ایک دریا وصال کا سو اتر گیا اسے بھول جا

امجد اسلام امجد


یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے

جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے

ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا

ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے

یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں

کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے

وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو

دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے

جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں

سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے

ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی

مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے

جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے

جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے

ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے

تمام غنچے تو امجدؔ کھلا نہیں کرتے

امجد اسلام امجد




ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے

تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے

تم ہی نہ سن سکے اگر قصۂ غم سنے گا کون

کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے

ہوش میں آ چکے تھے ہم جوش میں آ چکے تھے ہم

بزم کا رنگ دیکھ کر سر نہ مگر اٹھا سکے

رونق بزم بن گئے لب پہ حکایتیں رہیں

دل میں شکایتیں رہیں لب نہ مگر ہلا سکے

شوق وصال ہے یہاں لب پہ سوال ہے یہاں

کس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر ملا سکے

ایسا ہو کوئی نامہ بر بات پہ کان دھر سکے

سن کے یقین کر سکے جا کے انہیں سنا سکے

عجز سے اور بڑھ گئی برہمی مزاج دوست

اب وہ کرے علاج دوست جس کی سمجھ میں آ سکے

اہل زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہل دل

کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے

حفیظ جالندھری


کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا

کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا

چارہ گروں نے اور بھی درد دل کا بڑھا دیا

دونوں کو دے کے صورتیں ساتھ ہی آئنہ دیا

عشق بسورنے لگا حسن نے مسکرا دیا

ذوق نگاہ کے سوا شوق گناہ کے سوا

مجھ کو بتوں سے کیا ملا مجھ کو خدا نے کیا دیا

تھی نہ خزاں کی روک تھام دامن اختیار میں

ہم نے بھری بہار میں اپنا چمن لٹا دیا

حسن نظر کی آبرو صنعت برہمن سے ہے

جس کو صنم بنا لیا اس کو خدا بنا دیا

داغ ہے مجھ پہ عشق کا میرا گناہ بھی تو دیکھ

اس کی نگاہ بھی تو دیکھ جس نے یہ گل کھلا دیا

عشق کی مملکت میں ہے شورش عقل نامراد

ابھرا کہیں جو یہ فساد دل نے وہیں دبا دیا

نقش وفا تو میں ہی تھا اب مجھے ڈھونڈتے ہو کیا

حرف غلط نظر پڑا تم نے مجھے مٹا دیا

خبث دروں دکھا دیا ہر دہن غلیظ نے

کچھ نہ کہا حفیظؔ نے ہنس دیا مسکرا دیا

حفیظ جالندھری



یہ کیا مقام ہے وہ نظارے کہاں گئے

یہ کیا مقام ہے وہ نظارے کہاں گئے

وہ پھول کیا ہوئے وہ ستارے کہاں گئے

یاران بزم جرأت رندانہ کیا ہوئی

ان مست انکھڑیوں کے اشارے کہاں گئے

ایک اور دور کا وہ تقاضا کدھر گیا

امڈے ہوئے وہ ہوش کے دھارے کہاں گئے

افتاد کیوں ہے لغزش مستانہ کیوں نہیں

وہ عذر مے کشی کے سہارے کہاں گئے

دوران زلزلہ جو پناہ نگاہ تھے

لیٹے ہوئے تھے پاؤں پسارے کہاں گئے

باندھا تھا کیا ہوا پہ وہ امید کا طلسم

رنگینی نظر کے غبارے کہاں گئے

اٹھ اٹھ کے بیٹھ بیٹھ چکی گرد راہ کی

یارو وہ قافلے تھکے ہارے کہاں گئے

ہر میر کارواں سے مجھے پوچھنا پڑا

ساتھی ترے کدھر کو سدھارے کہاں گئے

فرما گئے تھے راہ میں بیٹھ انتظار کر

آئے نہیں پلٹ کے وہ پیارے کہاں گئے

تم سے بھی جن کا عہد وفا استوار تھا

اے دشمنوں وہ دوست ہمارے کہاں گئے

کشتی نئی بنی کہ اٹھا لے گیا کوئی

تختے جو لگ گئے تھے کنارے کہاں گئے

اب ڈوبتوں سے پوچھتا پھرتا ہے ناخدا

جن کو لگا چکا ہوں کنارے کہاں گئے

بیتاب تیرے درد سے تھے چارہ گر حفیظؔ

کیا جانیے وہ درد کے مارے کہاں گئے

حفیظ جالندھری

 

 

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Sana's Dairy