Today's

 




سوچتا ہوں میں یہ ہر دم میرے جیسا کون ہے

سوچتا ہوں میں یہ ہر دم میرے جیسا کون ہے

مجھ سا تنہا اس جہاں میں اور تنہا کون ہے

پتھروں کے سامنے آیا ہوں لے کر آئینہ

دیکھنا ہے مجھ سے اب آنکھیں ملاتا کون ہے

تم کسی کے غم کو اپنا غم بنا کر دیکھنا

پھر بتانا خوش دلی سے مسکراتا کون ہے

ہر طرف مطلب پرستی ہر طرف چالاکیاں

دوستی اس دور میں دل سے نبھاتا کون ہے

ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کے سامنے ہی رکھ دئے

آئینے کو آئینہ ایسے دکھاتا کون ہے

رکھ دیا ہے سامنے رنج و الم تکلیف سب

حالِ دل پر اب مرے آنسو بہاتا کون ہے

ہر طرف بغض و حسد نفرت کی آندھی ہے مگر

شمعِ الفت دیکھنا ہے اب جلاتا کون ہے

صرف خوش کرتے ہیں ایسی باتوں سے محبوب کو

چاند تارے توڑ کر کے ورنہ لاتا کون ہے

ارشاد عاطفؔ

ارشاد عاطف

 


سہارا اس نے لیا ہے غلط صفائی کا

سہارا اس نے لیا ہے غلط صفائی کا

لحاظ پھر بھی میں رکھوں گا آشنائی کا

ہر ایک لفظ کی آنکھوں سے خوں ٹپکنے لگا

کیا نہ حق ادا جب میں نے روشنائی کا

بڑھا رہا ہے وہ تعداد جھکنے والوں کی

یقیں ہے دعوی کرےگا وہ اب خدائی کا

بچایا تونے جسے ڈس لیا اسی نے تجھے

نتیجہ دیکھ لیا سانپ سے بھلائی کا

تو لے کے پھرتا ہے ہونٹوں پہ نیکیاں اپنی

حساب تونے رکھا ہے کبھی برائی کا

وہ جس کی آبرو میں نے بچائی تھی عاطفؔ

ثبوت مانگتا ہے مجھ سے پارسائی کا

ارشاد عاطفؔ

ارشاد عاطف
محبت کی کہانی چاہتا تھا

محبت کی کہانی چاہتا تھا

وہ دریا تھا، روانی چاہتا تھا

ملا تو ٹوٹ کے کچھ یوں ملا کہ

نئی ہر طرز آزمانی چاہتا تھا

کہاں اس کی طلب تھی مسکراہٹ

مری آنکھوں میں پانی چاہتا تھا

بچھڑ جانے کی خواہش لے کے آیا

مگر ، میری زبانی چاہتا تھا

وہ اپنی دھن کا پکا تھا رضا جی

ہجر کی ضد نبھانی چاہتا تھا

احمد ہاشمی


ہوش والے ہی اگر مدہوش ہو جائیں تو کیا

ہوش والے ہی اگر مدہوش ہو جائیں تو کیا

دیکھ کے پیکر ترا ، خوش پوش ہو جائیں تو کیا

رات بھر تیرے ہجر میں ہم جو ہیں روتے رہے

بے سانس ہو جائیں تو کیا ،خاموش ہو جائٰیں تو کیا

احمد ہاشمی

غزل

نہیں معلوم وہ کیسا جہاں تھا

بہ ہر سُو رقصِ بسمل کا سماں تھا

شباہت چشم و ابروئے صنم کی

نظر تھی تیر ، تو ابرو کماں تھا

نظر اُس شوخ نے جس دم اُٹھائی

سرِ مقتل پھر اک شورِ فغاں تھا

ذرا دیکھو میرا شوقِ شہادت

جہاں تلوار برسی سر وہاں تھا

شہیدِ ناز کا بعد از شہادت

لہو سوئے کفِ جاناں رواں تھا

پلائی جب مجھے ، خود کو نہ پایا

یہ میں تھا ! یا میرا پیرِ مغاں تھا !

تجلی یار کی مجھ پر پڑی جب

مجھے خود یار ہونے کا گُماں تھا

اُتر آیا تھا وہ میرے مکاں تک

جہاں میں تھا وہیں پر لامکاں تھا

تلاشِ یار میں سسی کا رونا

محبت کا وہ بحرِ بے کراں تھا

جسے سسی نے تھل مارو میں ڈھونڈا

اُسی کے گوشہِ دل میں نہاں تھا

خود اپنی یاد میں اُس کو مٹایا

پنل سسی پہ کتنا مہرباں تھا

شفیقؔ آیا میں پیشِ دلربا جب

وہی اک تھا بہ ہر سُو ، میں کہاں تھا!

شفیق احمد


وہی سر قتل گاہِ یار میں سردار ہوتا ہے

وہی سر قتل گاہِ یار میں سردار ہوتا ہے

بہ صد شوقِ شہادت جو تہِ تلوار ہوتا ہے

گزر جاتی ہیں عمریں پھر اُسی جاناں کی اُلفت میں

محبت کا فقط اک بار جب اقرار ہوتا ہے

نظر آتی ہے بس اک یار کی صورت بہ ہر جانب

پرستارِ محبت منکرِ اغیار ہوتا ہے

طلبگارِ غمِ محبوب ہی ، محبوب بنتا ہے

قریب اپنے مسیحا کے ، دلِ بیمار ہوتا ہے

کبھی بے فیض رہ سکتا نہیں سنتے یہ آئے ہیں

کوئی جب روبروئے اہلِ دل اک بار ہوتا ہے

فقط انسانیت کا درس جو دیتا ہے دنیا میں

ہزاروں صاحبوں میں صاحبِ کردار ہوتا ہے

ہر اک سجدے میں پاتا ہے وصالِ یار کی لذت

وہ طالب جس کا قبلہ آستانِ یار ہوتا ہے

شفیق احمدؔ عطائے یار کے انداز ہیں سارے

بنا ڈالا کوئی زاہد ، کوئی مے خوار ہوتا ہے

شفیق احمد

کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہے

 تہذیب حافی

 

کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہے
تیرے جانے کا غم کیا گیا ہے

تا قیامت ہرے بھرے رہیں گے
ان درختوں پہ دم کیا گیا ہے

اس لیے روشنی میں ٹھنڈک ہے
کچھ چراغوں کو نم کیا گیا ہے

کیا یہ کم ہے کہ آخری بوسہ
اس جبیں پر رقم کیا گیا ہے

پانیوں کو بھی خواب آنے لگے
اشک دریا میں ضم کیا گیا ہے

ان کی آنکھوں کا تذکرہ کر کے
میری آنکھوں کو نم کیا گیا ہے

دھول میں اٹ گئے ہیں سارے غزال
اتنی شدت سے رم کیا گیا ہے

 


غزل

یہ زباں گر خموش ہوتی ہے

آنکھ ہنستی ہے آنکھ روتی ہے

اے صبا حالِ دل بھی کہہ دینا

گر تیری ان سے بات ہوتی ہے

اشک یوں بے سبب نہیں بہتے

آنکھ دل کا غبار دھوتی ہے

گل و بلبل جو ساتھ ہوتے ہیں

کیا خبر کس کی بات ہوتی ہے

رات بھر محوِ نالہ رہتی ہے

چشمِ نم اسطرح سے سوتی ہے

شبِ فرقت کا طول مت پوچھو

کہنے کو ایک رات ہوتی ہے

عبث دنیا میں یوں الجھ بیٹھے

زندگی بے ثبات ہوتی ہے

یوں کلیجے پہ ہات پڑتا ہے

جو کہیں انکی بات ہوتی ہے

اور کچھ سوجھتا نہیں افضل

رات دن اسکی یاد ہوتی ہے

شاہ محمد افضل


غزل

کیسے بتاٶں یہ کہ تم بے حد حسین ہو

اور مستزاد اس پہ کہ ذہین و فطین ہو

اترے ہو کہکشاں سے کہ قوسِ قزح سے

چاند کی کرن ہو یا زہرہ جبین ہو ؟

یاقوت ہو زمرد ہو ؛ نیلم کہ پکھراج ہوں

سب کو کرے جو مانند تم ایسا نگین ہو

خوش کلام بھی ہو اور خوش خصال بھی

شرمائے حور جس سے تم وہ مہ جبین ہو

نکہت گلوں زلف میں ، سانسیں ہیں مشکبو

آنچل کو چھو لے گر صبا تو عنبرین ہو

نازکی گلاب کی ، پھولوں کا بانکپن ہو تم

ناز و ادا ٕ کی انتہا ٕ ہو نازنین ہو

دل کا قرار بھی ہو تم اور دل آرام بھی

دھڑکن میں بس رہے ہو اور دلنشین ہو

بڑھ کر نہیں جو دلربا تم سے جہان میں

کیوں نہ نثار تم پہ پھر افضل حزین ہو

شاہ محمد افضل


یہ ضروری تو نہیں

مجھے تم سے محبت ہو یہ ضروری تو نہیں

دل جلے اور دھواں اُٹھے یہ ضروری تو نہیں

اب سزا تجھ پر ہے لازم جان لو

عائد ہو کوئی فرد جرم یہ ضروری تو نہیں

پی لے اپنے آنسو اور سنبھال کے رکھ

بن کے وہ لاوہ بہیں یہ ضروری تو نہیں

میرا سوال تیرا جواب فرض ہے تجھ پر

تیرا سوال میرا جواب یہ ضروری تو نہیں

اُن کی آنکھوں میں میری ساری دنیا ہے پنہاں

وفا کی دوڑ میں تیری شرکت یہ ضروری تو نہیں

میری سوچ میرے احساسات بہت انمول ہیں دوست

تیری سوچ تیرے احساسات یہ ضروری تو نہیں

میں تو عشق کے رُتبے پر فائز ہوں سعیدؔ

محبت کا “م” تُو بولے یہ ضروری تو نہیں۔

رفاقت سعید


دُعا

چلو آج کچھ یوں حساب کرتے ہیں

بددعا کے بدلے ہم صرف دُعا کرتے ہیں

انھیں مبارک ہو ان کی یہ جیت

لو ہم اپنی ہار کا اقرار کرتے ہیں

مکاری کا بازار ہے جھوٹ بکتا ہے یہاں

ہاتھ چوم کے بھی لوگ دغا کرتے ہیں

جن کی پہچان میرے نام سے رہی تمام عمر

آج وہ اغیار سے وعدہ وفا کرتے ہیں

جب کوئ بھی سامع نہیں ملتا ہم کو

رابطے ہم پھر خدا سے بحال کرتے ہیں

سمجھ میں کچھ نہیں آتا سوچ صلب ہے

با وضو ہو کر سعیدؔ ورد “والضحی” کرتے ہیں۔

رفاقت سعید


ایک بار محبت ہونی چاہیے

ایک بار محبت ہونی چاہیے

زندگی میں ایک بار محبت ہونی چاہیے

ملاوٹ سے پاک اور خالص ہونی چاہئے

زمانے کی ساری تلخیاں سمیٹ کر بھی

گفتگو ھماری میں حلاوت ہونی چاہیے

عقل تو ناقد ھے ناقد ہی رہے گی

ع “ سے عشق کی ابتدا ہونی چاہیے

گر کر ھی لیا ھے ترک تعلق کا ارادہ

کم از کم اس موضوع پر بات ہونی چاہیے

میری ساری ریاضتیں بھلے نہ ھوں سفل

دعا تو دوا ہے - دعا ہونی چاہیے۔

عمر گزشتہ رہی ہزار پردوں کے پیچھے

ہماری بھی تقریب رونمائی ہونی چاہیے

لہجوں کے زہر کی مت شکایت کر سعید

ہمیں شجرہ نصب کی پہچان ہونی چاہیے۔

رفاقت سعید


غزل

نشاں اس کے غضب کے اب نظر آنے لگے ہم کو

خدا سے گڑگڑا کر اب دعائیں کر رہے ہیں ہم

زمیں پر امن رکھنے کو ہمیں بھیجا گیا ہے ، پر

گناہوں اور فصادوں سے زمیں کو بھر رہے ہیں ہم

عداوت اور نفرت کا نتیجہ خاک ہونا ہے

مگر پھر بھی ہتھیلی پر یہ شعلے دھر رہے ہیں ہم

ہوئے ہیں ہم سے سرزد جرم جو بھی جانے ان جانے

خدا سے بخش دینے کی دعایئں کر رہے ہیں ہم

کبھی راتوں کے سنّاٹے ڈراتے تھے ہمیں کاشف

مگر اب دن کی خاموشی سے بےحد ڈر رہے ہیں ہم

ڈاکٹر محمد عدنان علی


غزل

نشاں اس کے غضب کے اب نظر آنے لگے ہم کو

خدا سے گڑگڑا کر اب دعائیں کر رہے ہیں ہم

زمیں پر امن رکھنے کو ہمیں بھیجا گیا ہے ، پر

گناہوں اور فصادوں سے زمیں کو بھر رہے ہیں ہم

عداوت اور نفرت کا نتیجہ خاک ہونا ہے

مگر پھر بھی ہتھیلی پر یہ شعلے دھر رہے ہیں ہم

ہوئے ہیں ہم سے سرزد جرم جو بھی جانے ان جانے

خدا سے بخش دینے کی دعایئں کر رہے ہیں ہم

کبھی راتوں کے سنّاٹے ڈراتے تھے ہمیں کاشف

مگر اب دن کی خاموشی سے بےحد ڈر رہے ہیں ہم

ڈاکٹر محمد عدنان علی


غزل

نام تیرا صدا ، میرا ورد زباں ہے

بسایا میرے دل میں، توں نے اپنا جہاں ہے

یادیں تیری تیرا تصور ، صدا رہتا ہے نظر میں

لوگ پوچھتے ہیں مجھ سے، توں رہتا کہاں ہے

ہمسفر سمجھا تھا میں نے تمہیں اپنی منزل کا

سفر کے بیچ میں بدلا منزل کا نشاں ہے

رک رک کے کیے وار ہوئے تیر دل کے پار

واہ ! کیسا یہ رحم ہے نہ سنی آہ و فگاں ہے

راہ میں تیری کھڑا ہے تیرا نواز طالب

اب اس کا کوئی ٹھکانا نہ اس کا کوئی مکاں ہے

محمد نواز


غزل

میرا ان سے یہ کیا ملن تھا ؟

پل دو پل کی شناسائی کیا یہ لگن تھا ؟

پایا جو درد میں نے اس یاد میں

دوش قسمت کونہیں یہ میرا ہی کرن تھا

بھلا ایسا ناطہ کہاں رہ سکتا تھا قائم ؟

بنا جڑ کے پیڑ جو قریب گرن تھا

پہلے ہی جانتی تھی خزاں گھر کے راستے

برسات سے جلا گھر کیا آگ کا ساون تھا ؟

غموں کے پہاڑ سر پر اٹھا کے نواز

کیسے نہ ٹوٹتا کیا وہ سنگ بدن تھا ؟

محمد نواز


جھوٹ، نفرت کبھی نہیں لکھنا

جھوٹ، نفرت کبھی نہیں لکھنا

خوب صورت سدا حسیں لکھنا

چاند جھومر ہے اس کے ماتھے کا

مہ جبیں کو ہی مہ جبیں لکھنا

جھیل آنکھوں سے جب ملیں آنکھیں

ہم نے سیکھا غزل وہیں لکھنا

دل بھی خالی مکان ہے گویا

کوئی آیا نہیں مکیں، لکھنا

کشتِ ویراں میں پیار کی رم جھم

دل کو آتا نہیں یقیں لکھنا

خواب، خوشبو، خیال کی باتیں

غیر ممکن ہے ہر کہیں لکھنا

انور علی علوی


یہ فسانہ نہیں حقیقت ہے

یہ فسانہ نہیں حقیقت ہے

عشق ہے اور بلا ضرورت ہے

عمر بھر کی یہی ریاضت ہے

ابنِ آدم سے کی محبت ہے

رات، یادیں، ہجومِ تنہائی

اشک آنکھوں سے کی عبادت ہے

پھول زخموں کے، تاج کانٹوں کا

باغباں کی بڑی عنایت ہے

یاد رکھنا ہے اپنی مجبوری

بھول جانا تمہاری عادت ہے

غم کو اپنا ندیمؔ ہے سمجھا

جانِ جاں! یہ تری امانت ہے

انور علی علوی

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Sana's Dairy