یہ کیسی محبت ہے؟

 

یہ کیسی محبت ہے؟

آبروو الدین کی اکلوتی بیٹی تھی ۔وہ بہت خوش مزاج تھی۔5فٹ 6انچ قد،خو بصورت آنکھیں ،دبلی پتلی،گھنے بال،گلابی ہونٹ اور رخسار پر موٹا تل تھا۔جو چہرے پر الگ ہی کشش کا سما پیدا کر رہا تھا۔وہ سادہ سی لڑکی تھی ۔وہ امیر گھرانے   سے تعلق رکھتی تھی۔وہی اس کےگھر کے سامنے ایک گھر تھا۔اس میں ایان نام کا لڑکا رہتا تھا۔وہ بھی والدین کا اکلوتا بیٹا  تھا۔وہ غصہ والا اور جذباتی لڑکا تھا۔البتہ فیشن ابیل لڑکا تھا۔اور وہ بھی  امیر گھرانے کا لڑکا تھا۔وہ  دونوں ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔لیکن پھر بھی اُن کی  آپس میں کبھی نہ بنی۔لیکن جب یو نیورسٹی کے لیے نکلتے تو اُن کا سامناہوتا۔وہ ایک ہی بس سٹاپ پریونیورسٹی وین کا انتظار  کرتے تھے ۔وہ کلاس فیلو بھی تھے۔لیکن پھر بھی دونوں میں آج تک  بات نہیں ہوپائی ۔کیونکہ آبرو خوش مزاج اور ایان غصہ والا لڑکا تھا۔آبرو کلاس میں سب سے زیادہ لائق تھی۔ایان پڑھائی میں کمزور تھا ۔۔کیونکہ وہ زیادہ وقت آوارہ لڑکوں میں گزارتا۔آبروکے بھی دوست تھے ۔لیکن وہ دوستی نبھانے کے ساتھ ساتھ پڑھائی پہ بھی بہت زیادہ توجہ دیتی تھی۔کیونکہ وہ اپنے والدین کی بیٹی نہیں بیٹا بن کے دیکھانا چاہتی تھی۔ایان کی سوچ ایسی نہیں تھی۔وہ کہتا کے جو میرے والدین کا ہے ۔وہ سب کچھ میرا ہی ہے۔اس لیے وہ اپنی ہی سنتا اور خود میں مست رہتا۔جب اُن کے کلاس میں ٹیسٹ ہوئے تو آبروکلاس میں اول آئی۔جب کہ اُس کے مقابلے میں ایان خالی پاس ہوا۔تُو اُس کے سر نے اُسے ڈانٹااور کہا کے اپنی پڑھائی پر تو جہ دو ۔اُس کی مدد کے لیے سر نے کہا کہ  آبرو سے نوٹس لے کرتیاری کرو ۔اورآبرو سے کہاکہ وہ اُسے اپنے نوٹس دے تاکہ وہ تیاری کر سکے۔آبرو چاہتی تھی ۔کہ وہ ایان کو خود ہی نوٹس دے آۓ۔جب وہ نوٹس دینےجارہی تھی۔تُو سامنے ہی ایان آرہاتھا۔دونوں کی راستے میں ہی ملاقات ہو گئی۔یہ اُنکی پہلی مرتبہ بات ہو رہی تھی۔آبرونے کہاہاۓ تو جواب میں ایان نے کہا ہیلو۔آبرو نے پو چھا کیسے ہو آپ تُو اُس نے کہا ٹھیک۔اس سے پہلے کہ آبرو کچھ بولتی ایان خود ہی بولا۔کیا آپ مجھے دو دن کے لیے نوٹس دے سکتی ہو۔اس نے کہا ضرور میں آپ کے پاس نوٹس دینے ہی آرہی تھی۔ ایان غصہ والا اس لیےاس نے زیادہ بات نہیں کی ۔اُس کا شکریہ اد کیااور خدا خافظ کہا۔اس سےپہلے کہ ایان جاتا۔آبرو نے اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔اور کہاآپ سے بات کر  کےخوشی ہوئی ۔ایان سوچنے لگااور تھوڑی دیر بعد اُس کی طرف ہاتھ  بڑھایااور کہا آپ سے  مل کربھی خوشی ہوئی۔اور چلے گئے۔پھر جب وہ بس سٹاپ پر وین کا انتظار کرتے تو اُن میں بات ہو تی۔دو دن کے بعد ایان نے  آبرو کے نوٹس واپس کر دیے۔اُس کا شکریہ ادا کیا۔پھر وہ کینٹین میں بھی ایک ساتھ ہی لنچ کرتے۔ایان کو بیڈمنٹن کھیلنابہت پسندتھا۔اس لیےوہ فارغ وقت میں کھیلتا تھا۔آبرو کو کھیلنے میں تُو نہیں لیکن دیکھنے میں دلچسپی تھی۔وہ اکثر ان کو کھیلتے دیکھتی۔

ایک دن چھٹی ٹائم کلاس سے باہر آرہی تھی۔اس کی ٹکر ایک لڑکے سے ہو گئی۔آبرو کے سوری کہنےپر بھی وہ بد تمیزی سے پیش آرہا تھا۔ایا ن نے دیکھا تو اس کے پاس آیا۔کسی کی نہ سنی اور جھگڑاشروع کر دیا۔آبرو  اُسے روکتی رہی ۔لیکن اُس نے کی نہ مانی۔پھر اُسےجھگڑے میں کافی چوٹیں آئیں۔آبرو نے کہامیں تمہیں ہسپتال لے جاتی ہوں۔لیکن وہ نہ مانا۔لیکن آبرو اُسے  ہسپتال لے گئی ۔وہاں اُسے فسٹ ایڈدی گئی ۔پھر وہ اُسے اپنے ساتھ اُسے اُس کے  گھر لے کر گئی۔ایان کی ماما صوفہ پر بیٹھی تھی ۔اپنے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر وہ کھڑی ہو گئی اُ س کی طرف لپکی اور پوچھا ایان بیٹا  ۔کیسے ہوا یہ سب ۔ا س سے پہلےکے آبرو بولتی ۔ایان نے کہا کچھ نہیں بس لڑکو ں سے جھگڑا ہو گیا ۔میں ٹھیک ہوں۔اُس کی ما ما نے اُن کوبیٹھایا۔آبرو اُن کے گھر پہلی دفعہ آئی تھی۔ایان کی ماما اکژ اُن کے گھر جاتی تھی ۔آبرو کی ماما   جب بھی ایان کے گھر آتی تُو اُسے بھی کہتی لیکن وہ کہتی میں جا کر کیا کرو نا  تُو اُن کی کو ئی بیٹی ہے۔اِس لیے ایان کی ماما بہت خوش ہو ئی کے وہ اُن کے گھر آئی ہے۔پھر ایان کی ماما کچن کی طر ف گئی ۔جب وہ گئی ۔تو آبرو نے کہاکے  کیا ضرورت تھی جھگڑا کرنے کی ۔وہ تمہارے ساتھ بدتمیز ی سے پیش آرہا تھا۔اِتنے میں اُس کی ماما آگئی اُور دونوں سے کہا کے لنچ کر لیں ۔آبرو نے کہا نہیں مجھے گھر جانا ہے۔پھر وہ دونوں کے لیے جوس لے کر آئی ۔آبرو نے ایان کا فون نمبر بھی لے لیا۔اُس نے جو س پیا اور گھر چلی گئی۔یہ سب اُس نے اپنی امی کو بھی بتایا۔پھر اُن کی رات کو بھی بات ہوئی ۔صبح ہوئی وہ اُن کے گھر آگئی ۔ایان کاحال پو چھا۔کہ آج تم یونیورسٹی نہیں جاؤ گے ۔اور میں بھی نہیں جانے والی ۔تم ریسٹ کر لو پھر ہم سب گھومنے جائے گے ۔پھر آبرو اور ایان کے والدین سب اکھٹے سیر کرنے گئے ۔اور ریسو رنٹ سے رات کا کھانا بھی اکھٹے کھایا۔ایان اور آبرو نے بھی بہت سی باتیں آپس میں شیئر کی۔اب وہ سارا دن ساتھ رہتے کلاس میں بھی اکھٹے بیٹھتے ۔آبرو نے اُس کی مدد کی اور دونوں کا رزلٹ بھی اچھا آگیا۔پھر ایان کو اُس سے محبت ہو گئی ۔اُس کے اظہار پر آبرو نے بھی ہاں کہا۔اُس نے پوچھا کیا تم مجھ سے شادی کرو گی۔جی تم اپنے گھر والوں سے بات کر لو ۔میں اپنے گھر والوں سے بات کر لیتی ہوں۔جب وہ گھر پہنچی ۔تُو اُس کی ماما نے بتایاکہ

اُس کے پاپا چاہتے ہیں کہ اپنے دوست کے بیٹے سے تمہاری شادی کی بات کریں ۔اُس نے بتایا کے میں کسی کو پسند کرتی ہوں ۔اور اُس سے ہی شادی کرنا چاہتی ہوں ۔اُس کی ماما یہ سن کر کمرے کی طرف چلی گئی اور کہا جو ہم چاہے گئے وہی ہو گا بس اِدھر ایان کا حال کچھ ایساتھا ۔اس کے والدین نے بھی کہا کے ہم اپنی مرضی کی لڑکی سے شادی کر یں گے ۔دونوں کی ملاقات ہوئی تو دونوں نے اپنا حال سنا یا۔ایان بہت جذباتی تھا۔اُس نے کہا ہم گھر سے بھاگ جاتے ہیں اور کوٹ میرج کر لے گے۔اُس کو اُس سے محبت تُو تھی لیکن وہ گھر سے بھاگنا نہیں چاہتی تھی۔وہ چا ہتی تھی کہ وہ اپنے والدین کوشادی کے لیے منالے۔کیونکہ جہاں اُسے ایان سے محبت تھی ۔وہاں اُسے اپنے والدین کی عزت کا بھی خیال تھا۔کہ میں والدین کی اکلوتی بیٹی ہوں ۔اگر میں بھی اُن کی عزت کا خیال نہیں رکھوں گی تُو کو ن رکھے گا۔وہ بہت سمجھ دار تھی۔اُس نے اُسے سمجھا یاحوصلہ دیا۔کہ ہم مل کے کوشش کریں گئے وہ  مان جائے گے۔ایان بہت جذبات میں فیصلے کرتا تھا۔ اگلے دن اُس نے آبرو کو کال کی اور کہا مجھے یہاں ملو۔پھر جب وہ گھر سے نکلنے لگا ۔تُواُس نے کچن سے دو چھریاں لے کر جیب میں ڈال لی۔پھر وہ اُس جگہ پہنچا۔تو ابھی وہ نہیں آئی تھی۔تھوڑی دیر بعد آبرو آئی ۔ایان وہاں پہلے ہی اُس کا انتظار کر رہا تھا۔اُس نے دیکھتے ہی کہا خیریت ہے ۔اتنی سنسا ن جگہ کیوں بلایا۔ملنا تھا تُو کسی اور جگہ مل لیتے ہم۔چلو ہم کافی شاپ چلتے ہیں وہاں آرام سے بیٹھ کر بات کریں گئے۔تُو اُس نے انکار کر دیا کہا کے مجھے تم سے یہی بات کرنی ہے۔پھر وہ اُس کے پا  س بیٹھ گئی۔تب اُس نے اپنا ہاتھاُس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا  ۔میں مر جانا چاہتا ہوں ۔آبرو نے ہاتھ اُس کے منہ پر رکھااور کہا خاموش تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔میں ہوں کے تمہارے ساتھ جینا چاہتی ہو ں اور تم ہو کہ مرنے کی باتیں کر رہےہو۔اُس نے کہا تمہارے بغیر جی نہیں پاؤنگا۔اگر تم ہی میرے پاس نہیں تو  میں زندہ رہ کے کیا کرو گا۔ آبرو نے اُسے سمجھایا۔ زیادہ پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں ۔آج نہیں تُو کل گھر والے مان جائے گئے۔ہم کوئی بھی فیصلہ جلد باز ی میں نہیں کریں گے۔لیکن وہ تھا کہ مان ہی  نہیں  رہا تھا۔اُس کے سر پر ایک ہی بُھو ت سوار تھا۔کی تم مجھ سے شادی کر لو۔ویسے یا بھاگ کے۔اُس نے کہا میں اپنے والدین کو دھو کا نہیں دے سکتی۔انہوں نے ہمیشہ میری ہر خواہش پوری کی ۔میں بات کرو گی مجھے یقین ہے کہ وہ مان  جائے گے ۔میں گھر سے بھاگنا نہیں چاہتی ۔یہ سن کر اُس نے کہاتم میرے ساتھ بھاگ  نہیں سکتی مر تُو سکتی ہو نا۔اُس نے کہا کیا ۔ایان نے کہا کے اس سے تمہارے والدین پر حرف بھی نہیں آئے گا اور لوگ ایسا ہی سوچے گے اُس نے خود کشی کر لی۔آبرو نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تُو اُس نے جیب سے چھری نکالی۔اور کہا مجھے زیادہ سمجھانے کی کوشش نہ کر و۔تم میر ے بغیر رہ سکتی ہو لیکن میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔اس سے پہلے میں تمہیں کسی اور کا ہو تے دیکھومیں مر جاؤں گا خود کو مار لونگا زندہ نہیں رہو گا۔ایسا بھی نہیں تھا کہ آبرو کو اُس سے محبت نہیں تھی۔وہ اُسے اُس سے بڑھ کر محبت کرتی تھی۔لیکن اُس کے والدین  کی محبت  کے سامنے ایان کی محبت بہت کم تھی۔لیکن وہ ایان کے بغیر بھی نہیں رہنا چاہتی  تھی اُس نے اُسے سمجھایا ۔لیکن اُس نے کہا مجھے سمجھا نے کی زیادہ ضرورت  نہیں  ۔ میں سمجھتا تھا کہ تم بھی مجھ محبت کر تی ہو۔تم کہتی ہو کہ میں تمہا رے ساتھ بھاگ نہیں سکتی۔لیکن میرے ساتھ مر تو سکتی تھی نا۔لیکن تم نے  شایدآ ج  تک مجھ سے محبت کی ہی نہیں ۔آبرو رونے لگی اُس نے کہا ایسا تو نہ کہومیں بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔پھر یا میرے ساتھ شادی کرلو،میرے ساتھ مر جاؤ،یا مجھے مر جانے دو بس۔آبرو سوچنے لگی اور سوچا  بھاگنے سے بہتر ہے کہ میں مرجاؤں۔اِ س سے میرے والدین کی عزت پر حر ف بھی نہیں آئے گااس لیے اُس نے اپنا موبائل نکالا ۔اور اُس میں ویڈیو بنائی کہ میں خود کشی کرنے لگی ہوں ۔اس کی وجہ میں خود بھی نہیں جانتی۔مجھے معاف کر دینا۔وہ اپنے والدین کی عزت کا بھی خیال رکھنا چاہتی تھی۔اور ایا  ن سے  محبت کا وعدہ  بھی نبھانا چاہتی تھی۔اُس نے کہامیں بھی تمہارے ساتھ مر و ں گی۔تمہارے بنا میں بھی زندہ رہ کے کیا کرو گی۔ایان نے دوسری چھری اُس کے ہاتھ میں دے دی ۔ایک دوسرے کے گلے ملے۔پھر دونوں نے چھری اپنی گردن کے سامنے رکھی اور دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔آبرو نے وہ ویڈیواپنے والدین کو بھیج دی ۔اُس نے سوچا کے وہ آنا جا ئے۔اُس نے چھر ی اپنی گردن پر چلا دی۔لیکن ایان جب چھر ی اپنے گلے کے پاس لے گیا۔اُس کے ہاتھ کانپنے لگےاُس کے جسم میں کپکپی طاری ہو گئی۔اور آبرو کو تڑپتے  دیکھ کر وہ اور بھی خوف زدہ ہو گیا۔اُس کے ہاتھ سے چھری گِر گئی۔اور خوف کی لہر اُس کے جسم میں دوڑ گئی۔یہاں تک وہ آبرو کو سبنھالتااور اُس کے پاس ہوتا ۔وہ اُس سے دُور جانے لگا ۔اب اُسےیاد نہ رہا کہ میں اِس سے محبت کرتا تھا۔وہ اُسے تڑپتا چھوڑ کر وہاں سے چلاگیا۔گھر جا کے وہ خاموش اپنے بسر پر لیٹ گیاجیسے سویا ہوا ہو۔تھوڑی دیر بعد آبروکے والدین وہا ں پہنچے۔تب تک آبرو اِس دنیا  سے جا چکی تھی۔گھر پہنچے تو ایان ایسے ہی رہا جیسے کچھ جانتا ہی نہیں ۔اس کے غلط فیصلے کی وجہ سے آبرو کی جان چلی گئی 

اور اُسے  احساس تک نہ تھا۔           

The End


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Sana's Dairy